۲۹ شهریور ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 19, 2024
حرم مطهر رضوی

حجت‌الاسلام علی رضا صادقی واعظ نے حرم امام رضا علیہ السلام میں میں رحلت رسول اکرم (ص) اور شہادت امام حسن مجتبیٰ (ع) کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا: پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کی ہدایت کے لیے بےحد مشتاق تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شب 28 صفر المظفر کو حرم امام رضا علیہ السلام میں رحلت رسول اکرم (ص) اور شہادت امام حسن مجتبیٰ (ع) کے سلسلے میں منعقدہ مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے حجت‌الاسلام علی رضا صادقی واعظ نے کہا: رسول خدا (ص) کی رسالت کی ایک اہم خصوصیت سورہ توبہ کی آخری آیات میں بیان کی گئی ہے۔،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: " لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَحِیمٌ " اس آیت کے مطابق، رسول خدا (ص) کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی امت کی ہدایت کے لیے حریص ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حرص ایک ایسی صفت ہے جو مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کی حامل ہوتی ہے، حرص کا منفی پہلو یہ ہے کہ انسان دنیاوی مال و دولت کو ہر قیمت پر حاصل کرنے کے لیے بےتاب ہو، شیطانی خواہشات کی پیروی کرے، اور نفسانی خواہشات میں مبتلا ہو جائے، یہ تمام صورتیں مذموم ہیں،لیکن اگر کوئی شخص لوگوں کی مشکلات حل کرنے، نماز اول وقت پڑھنے، حضرت امام رضا (ع) کی زیارت کرنے، یا خوش اخلاقی کے لیے حریص ہو، تو یہ ایک قابل تعریف عمل ہے۔

حرم امام رضا کے خطیب نے کہا : قرآن کہتا ہے کہ رسول خدا (ص) اپنی امت کی ہدایت کے لیے حریص ہیں، آپ (ص) نے دن رات ہر موقع پر کوشش کی کہ لوگوں کو ہدایت کے راستے پر گامزن کریں کیونکہ آپ (ص) کو دوسروں کے گمراہ ہونے پر خوشی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی آپ (ص) لوگوں کی تباہی کے خواہاں تھے، آپ (ص) اس لیے نہیں مبعوث ہوئے تھے کہ لوگوں کی غلطیوں کی نشاندہی کریں، بلکہ آپ (ص) تو اس لیے آئے تھے کہ انہیں غلطیوں سے بچا سکیں، آپ (ص) نے لوگوں کی ہدایت اور نجات کے لیے اپنی آخری سانس تک کوشش کی۔

حجت‌الاسلام صادقی واعظ نے تاریخی روایات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنگ احد کے دوران جب رسول خدا (ص) کی پیشانی پر پتھر لگا، تو آپ (ص) نے اپنی پیشانی سے خون صاف کرنے کی کوشش کی، لیکن ایک اور پتھر آپ (ص) کے ہاتھ پر لگا، اور پھر آپ (ص) کے دانت مبارک پر پتھر مارا گیا، اس موقع پر ایک شخص نے عرض کیا: "یا رسول اللہ، آپ دنیا و آخرت کی سعادت لے کر آئے ہیں، اور اب یہ لوگ آپ کے ساتھ اس طرح کا سلوک کر رہے ہیں، کیوں نہ آپ ان کے لیے بددعا کریں؟" رسول اللہ (ص) نے فرمایا: "میں بددعا کرنے کے لیے نہیں آیا ہوں، میں تو اس لیے آیا ہوں کہ ان کی رہنمائی کروں اور انہیں نجات دوں۔"

انہوں نے مزید کہا: جب رسول خدا (ص) کے سر اور چہرے سے خون جاری تھا، تو آپ (ص) نے اپنے ہاتھ اٹھا کر ان لوگوں کے لیے ہدایت کی دعا کی، رسول اللہ (ص) وہ واحد نبی ہیں جنہوں نے کبھی اپنی امت کے لیے عذاب کی دعا نہیں کی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .